ویب ڈیسک ۔۔ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کامعاملہ مستقبل قریب میں حل ہوتانظرنہیں آتا۔ شایدیہ کہنازیادہ درست ہوگاکہ یہ مسئلہ سلجھنےکی بجائےمزیدالجھتادکھائی دیتاہے۔
قارئین کی اطلاع کیلئےعرض ہےکہ اسپیکرقومی اسمبلی ایازصادق نےچیف الیکشن کمشنرکاخط لکھاہےجس میں صاف صاف لکھاہےکہ سپریم کورٹ کےفیصلےتحت تحریک انصاف کومخصوص نشستوں نہیں دی جاسکتیں ۔ ایازصادق نےخط میں لکھاکہ سپریم کورٹ کافیصلہ پرانےقانون کےتحت تھالیکن اب پارلیمنٹ نےالیکشن ایکٹ میں ترمیم کردی ہےاورنئےقانون کےتحت جس رکن نےپارٹی وابستگی کاسرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایاوہ آزادتصورہوگا۔
خط میں صاف صاف لکھ دیاگیاہےکہ وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے چیف الیکشن کمشنر سےکہاہےکہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور جمہوری اصولوں کی بالادستی یقینی بنائے۔
واضح رہےکہ اسپیکرپنجاب اسمبلی ملک محمداحمدخان نےبھی اسپیکرقومی اسملبی سےملتاجلتاخط الیکشن کمیشن کولکھاہے۔
مخصوص نشستوں کےفیصلےپرعمل نہ کرنےکےسنگین نتائج
دوسری جانب مخصوص نشستوں کےکیس میں اکثریتی فیصلہ دینےوالے8سپریم کورٹ ججزنےایک وضاحت جاری کی ہےجس کہاہے کہ 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، سپریم کورٹ کا12جولائی کا شارٹ آرڈر بہت واضح لیکن الیکشن کمیشن نے اس حکم کو غیر ضروری طورپرپیچیدہ بنایا ہے۔ وضاحتی بیان میں حکم دیا ہےکہ فیصلے پرعملدرآمد نہ کرنےکےسنگین نتائج ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کاسپریم کورٹ کی وضاحت پرسخت ردعمل
سپریم کورٹ کے8ججزکی وضاحت پرردعمل دیتےہوئےالیکشن کمیشن نےکہاکہ یہ تاثردرست نہیں کہ الیکشن کمیشن نےبیرسٹرگوہرکوپی ٹی آئی کاچیئرمین تسلیم کرلیاہے۔ پی ٹی آئی کاانٹراپارٹی الیکشن کامعاملہ پینڈنگ ہے،الیکشن کمیشن کی معاملہ جلدنمٹانےکی کوششوں کےباوجودپی ٹی آئی نےمعاملےکوغیرضروری طول دیا۔
مخصوص نشستوں سےمتعلق سپریم کورٹ کافیصلہ
سپریم کورٹ نےمخصوص نشستوں کےکیس میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے قرار دیاکہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آٹھ ،پانچ ججوں کی اکثریت کے تناسب سے یہ فیصلہ جاری کیا، جسٹس سید منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور عرفان سعادت خان نے اکثریتی فیصلہ قلمبند کیا ہے، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے مختصر فیصلے میں ان اپیلوں، درخواستوں اور متفرق درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشترکہ جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا علیحدہ اختلافی نوٹ قلمبند کیا۔ اکثریتی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نے لکھا۔ اکثریتی فیصلہ میں کہاگیاانتخابی نشان کا نہ ملنا کسی جماعت کوانتخابات سے نہیں روکتا،تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اورہے،عدالت نےالیکشن کمیشن کےنوٹیفکیشن کوکالعدم قراردیتے ہوئےمخصوص نشستوں کیلئےسنی اتحاد کونسل کی درخواست مستردکردی۔