دوستو،آج میں جوکہانی آپکوسنانےجارہاہوں ، وہ بظاہرتوایک عام سی کہانی ہےلیکن اگرآپ گہرائی میں جاکردیکھیں گےتواس کہانی میں آپکوبہت کچھ ملےگا ۔۔ بات وہی ہےکہ چیزوں کودیکھنےکاہم سب کااپنااپناانداز،اپنی اپنی سوچ اوراپنااپناخیال ہے ۔ کہانی ایک بارپڑھ لیجئے،پھرآپکوجوبھی سمجھناہے،سمجھیں ۔ یہاں اظہاررائےاوراختلاف رائےکی مکمل آزادی ہے ۔ رازداری قائم رکھنےکیلئےکہانی کےاصل کرداروں کی شناخت کوچھپایاگیاہے۔ دوستو،یہ کہانی ہم سب کی طرح ایک عام سےانسان کی ہے،جسےخوش قسمتی سےاس کےخوابوں کی شہزادی مل جاتی ہے ۔ یہ شخص جس کانام ہم کمال فرض کرلیتےہیں کمال کافرض شناس،ایمانداراورشریف النفس انسان ہے ۔ خوف خداکوٹ کوٹ کربھراہواہے۔ شادی کی پہلی رات بھی بےچارےنےیہ سوچ کرڈرتےڈرتےگزاردی کہ کہیں اس کی خوبروبیوی کسی بات پراس سےناراض نہ ہوجائے ۔ رفتہ رفتہ کچھ دن گزرے، بےتکلفی کاسلسلہ درازہواتوایک روزکمال نےہمت کرکےاہلیہ محترمہ سےکہا: جانو،مجھےتم سےکچھ نہیں چاہیے،بس اتنی تمناہےکہ تم روزاپنےہاتھوں سےمیرےلئےکھانابنایاکرو۔ بیوی : آپ بھی کمال کرتےہیں ، کچھ روزبعدمیں آفس جاناشروع کردوں گی،شام کوتھکی ہاری واپس آکرکیسےکھانابناوں گی، آپ پلیزکوئی کام والی رکھ لیں ۔ یہ سن کرکمال کےدل میں جیسےچھناکےسےکچھ ٹوٹ ساگیاہو۔۔ پھربھی اس نےاپنےچہرےپرآئےناگواری کےتاثرات کومسکراہٹ کےپردےمیں چھپاتےہوئےکہا: چلوٹھیک ہے،میں کسی کام والی کابندوبست کرلوں گا،لیکن چائےتومیں تمہارےہاتھ کی ہی پیوں گا ۔۔ بیوی : چائے؟ وہ تومیں اتنی بدمزہ بناتی ہوں کہ ایک بارآپ نےپی لی تودوبارہ پینےکانام نہیں لیں گے ۔ یہاں بھی کمال اپناسامنہ لیکررہ گیا لیکن بیوی سےمحبت کرتاتھا،اس سےرہانہ گیا۔ بولا: اچھا،کوئی بات نہیں لیکن تم شام کوجلدی گھرآجایاکرناتاکہ جب میں گھرآوں توتم بنی سنوری میرااستقبال کرواورہم روزرات کےکھانےکےبعدکہیں ٹہلنےجایاکریں اورایکدوسرےسےڈھیروں باتیں کریں ۔ بیوی : باقی سب توٹھیک ہےلیکن یہ گھرجلدی آنےوالی بات زرامشکل ہےکیونکہ میراکام ایساہےکہ دیرسویرہوجاتی ہے،اس لئےآپ کومیری روٹین کےساتھ خودکوایڈجسٹ کرناپڑےگا کیونکہ اپنےکیئرئیرپرمیں کوئی سمجھوتہ نہیں کرونگی اوریہ بات میں نےشادی سےپہلےبھی کلئیرکردی تھی ۔ یہ سنناتھا کہ کمال کی برداشت کاپیمانہ لبریزہوگیا لیکن اس نےکہاکچھ نہیں بس اسےچپ سی لگ گئی ۔ تقریباً پوری رات آنکھوں میں گزاردی ۔ صبح نمازپڑھی ، بارگاہ الہیٰ میں سربسجودہونےکےبعدجیسےاسےسکون مل گیا ۔ صبح دیرتک گہری نیندسوتارہا ۔ آنکھ کھلی توپتاچلاکہ اہلیہ محترمہ بذریعہ ٹیکسی اپنےمیکےجاچکی ہیں اورجاتےجاتےیہ حکم صادرکرکےگئی ہیں کہ کمال شام میں انہیں لینےآجائیں ۔ کمال جیسےکسی نتیجےپرپہنچ چکاتھا،واپس اپنےکمرےمیں گیا،موبائل فون اٹھایا،میسج باکس میں کچھ لکھا،سینڈکیااورگھرسےباہرنکل گیا ۔ ادھرکمال کی بیوی کودوپہرمیں ایک میسج موصول ہوا ۔ فون دیکھاتوجیسےزندگی ااپنی جگہ تھم سی گئی ۔ ایک ہی لفظ تین بارلکھاتھا ۔ بظاہرتویہ ایک بہت عام سی کہانی ہےلیکن اس عام سی کہانی میں ہم سب کیلئےایک خاص سبق ہے ۔ میرےنزدیک وہ سبق یہ ہےکچھ پابندیاں آزادی سےزیادہ خوبصورت ہوتی ہیں بس انہیں سمجھنےکی ضرورت ہے، شادی کےبندھن کی حفاظت میاں اوربیوی دونوں نےملکرکرنی ہوتی ہے،کسی ایک کی کمزوری ،لاپروائی یاپھرغفلت اس بندھن کوتوڑنےمیں دیرنہیں لگاتی ۔ آپ اپنی رائےکااظہارنیچےدئیےگئےکمنٹ باکس میں کرسکتےہیں ۔