ویب ڈیسک ۔۔ گوگل کے سابق سی ای او ایرک شمٹ کہتےہیں امریکی حکومت کی غفلت کےباعث 5 جی ٹیکنالوجی کی دوڑامریکا چین سےبہت پیچھےرہ گیاہے۔انہوں نےواشنگٹن سےاگلی نسل کی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری بڑھانے پرزوردیا۔
وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونےوالےمضمون میں ایرک شمٹ اورہارورڈ میں گورنمنٹ پروفیسرگراہم ایلیسن نےلکھاہےکہ فائیوجی ٹیکنالوجی کہ ہرجہت میں چین اوردیگرممالک امریکہ سےبہت آگےنکل چکےہیں۔
دونوں مصنفین نےبائیڈن انتظامیہ کومشورہ دیاکہ وہ 5جی ٹیکنالوجی کوقومی ترجیح بنائےبصورت دیگرچین 5جی ٹیکنالوجی کےمستقبل کامالک ہوگا۔
5جی سے مراداگلی نسل کا وائرلیس انٹرنیٹ ہے جوانٹرنیٹ کی سپرفاسٹ سپیڈکےساتھ تیزترین ڈاؤن لوڈنگ کویقینی بناتاہے۔ یہ صنعتی اور فوجی ایپلی کیشنز کی بنیاد بھی بناسکتا ہے اورکمیونیکیشن آلات کےذریعےایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کومزیدآسان اورتیزتربنا سکتا ہے۔ اسی لیے اسے ایک اہم ٹیکنالوجی کے طورپردیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ یہ ہے کہ چین اپنے5 جی رول آؤٹ اورفیوچرایپلی کیشنزکےساتھ تیزی سےآگےبڑھ رہا ہے۔
شمٹ اور ایلیسن مزیدلکھتےہیں حقیقی 5 جی انٹرنیٹ کی رفتاربڑھانےسےلیکرخود مختار گاڑیوں، ورچوئل ریئلٹی ایپلی کیشنز جیسے میٹاورس اور دیگرایسےشعبوں میں یکساں کامیابیاں حاصل ہوں گی جن کی ایجاد ابھی باقی ہے۔ ایسی ایپلی کیشنز بہت زیادہ ہیں جو ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اس کی فوجی صلاحیتوں کو بڑھا سکتی ہیں۔
انہوں نےدعوِیٰ کیاکہ چین کی اوسط 5 جی ڈاؤن لوڈ کی رفتار امریکہ کے مقابلےمیں کہیں زیادہ ہے۔ چین کی میڈین ڈاؤن لوڈ سپیڈ 2021 کی تیسری سہ ماہی میں 299 میگا بٹس فی سیکنڈسےزیادہ تھی اوراس کےمقابلےمیں یہی اسپیڈامریکامیں 93.73 میگا بٹس فی سیکنڈ تھی۔ یہ اعداوشمارانٹرنیٹ کی اسپیڈٹیسٹ کرنےوالی ایک کمپنی نےجاری کئےہیں۔
ایلیسن اور شمٹ کےمطابق چین کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن آلات بنانے والی کمپنی ہواوے اب بھی مارکیٹ پر حاوی ہےحالانکہ امریکی پابندیوں نے ہواوے کوخاصانقصان پہنچایا ہے۔
مزیدیہ کہ چین ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کیلئےوائرلیس سپیکٹرم کاسب سےموثراورتیزترین حصہ جسے مڈ بینڈ کہا جاتا ہے، مختص کر رہا ہے۔ مصنفین نے دعویٰ کیا کہ اےٹی اینڈٹی اورویریزن امریکہ میں اپنے 4 اور 5جی دونوں نیٹ ورکس کے لیےاسی سپیکٹرم بینڈکااستعمال کررہے ہیں۔ یہ کہاجائےتوغلط نہ ہوگاکہ چین نے5جی کی دوڑمیں امریکاکوبہت پیچھےچھوڑدیاہے۔
5جی کی دوڑ میں امریکہ کی قابل رحم کارکردگی اس بات کی علامت ہے کہ سٹریٹجک لحاظ سےاہم ٹیکنالوجیزکےمیدان میں امریکاچین کامقابلہ کرنےمیں ناکام رہاہے۔ چین ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ، گرین انرجی اور مصنوعی ذہانت کے بہت سےشعبوں میں بھی امریکہ سے آگے ہے۔
موجودہ رفتار پر، 2030 تک یہ ممکنہ طورچین سیمی کنڈکٹر چپس تیارکرنےکی دوڑمیں امریکاسےآگےبڑھ جائےجوفائیوجی ٹیکنالوجی کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں اور کینسر جیسی بیماریوں کو شکست دینے کے لیےاستعمال ہوتےہیں۔
پچھلےسال مصنوعی ذہانت پرقومی سلامتی کمیشن کی ایک رپورٹ، جس کی سربراہی شمٹ نے کی، کہا کہ چین جلد ہی امریکہ کی جگہ دنیا کی سپر پاوربن سکتا ہے۔