Home / مصنوعی ذہانت آخرکیابلاہے؟

مصنوعی ذہانت آخرکیابلاہے؟

What is AI?

ان دنوں مصنوعی ذہانت کےبہت چرچےہیں۔ یہ ہےکیا؟ مصنوعی ذہانت کےبارےمیں درست اندازہ لگاناہےتویوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایساسافٹ وئیرہےجوانسانی سوچ کی طرح کام کرتاہے۔ یہ نہ توانسانی سوچ جیساہے،نہ اس سےبہترہےنہ بدتر۔ لیکن انسانی سوچ کی کوئی رف کاپی بھی ہوتویقیناًوہ بھی فائدہ ہی دےگی۔ ایک بات کایقین رکھیں کہ یہ حقیقی ذہانت ہرگزنہیں۔

اےآئی کو مشین لرننگ بھی کہا جاتا ہےلیکن کیا مشین واقعی سیکھ سکتی ہےاور کیا واقعی ذہانت کی تعریف کی جا سکتی ہے؟ یادرکھیں کہ اےآئی کا شعبہ جتناسوالات کے بارے میں ہےاتنا ہی یہ جوابات کے بارے میں بھی ہےاوراس بارےمیں کہ ہم کس طرح سوچتےہیں؟

آج کے اےآئی ماڈلز کے پیچھے تصورات دراصل نئے نہیں بلکہ دہائیاں پرانےہیں لیکن پچھلی دہائی میں ہونے والی پیشرفت نے ان تصورات کو بڑے اوراس سےبھی بڑے پیمانے پر لاگو کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ نتیجہ چیٹ جی پی ٹی کی قائل کرلینےجیسی گفتگو اورمتن سےمنفردتصاویربنانےجیسےفن کی صورت میں ہمارےسامنےہے۔

اگرچہ اس وقت مختلف اےآئی ماڈلزموجود ہیں، لیکن ان کااسٹرکچرتقریباًایک جیساہے۔ ان کاکام ایک پیٹرن میں ممکنہ طور پر اگلے مرحلے کی پیش گوئی کرناہے۔

اےآئی  ماڈل دراصل کچھ بھی نہیں جانتےلیکن وہ پیٹرن کا پتہ لگانے اور اسےجاری رکھنے میں بہت اچھے ہیں۔ اس تصور کو کمپیوٹیشنل ماہر لسانیات ایملی بینڈر اور الیگزینڈر کولر نے 2020 میں سب سے زیادہ متحرک انداز میں بیان کیا، جنہوں نے اےآئی کوایک انتہائی ذہین گہرے سمندر کے آکٹوپس سے تشبیہ دی۔ ایساآکٹوپس جوزیرسمندرایک ٹیلی گراف کی تارسےچمٹاہواہےجسےدوانسانی اپنی گفتگوکیلئےاستعمال کرتےہیں۔ انگریزی زبان اورانسانیت کےبارےکچھ بھی نہ جاننےکےباوجودیہ آکٹوپس ان نقطوں اورڈیشوں کاایک بہت ہی مفصل شماریاتی ماڈل بناسکتاہےجن کاوہ پتالگاتاہے۔

آکٹوپس کواگرچہ کوئی آئیڈیانہیں ہوتاکہ ہیلو،آپ کیسےہیں ، بہت مہربانی ، شکریہ جیسےالفاظ کےکیامعنی ہیں لیکن اسےاتناسمجھ آجاتی ہےکہ یہ تمام الفاظ ایک خاص پیٹرن میں ایک دوسرےکےپیچھےآتےہیں کبھی ایک دوسرےسےپہلےنہیں آتے۔ اس طرح چندسالوں میں وہ مختلف اقسام کےپیٹرنزکوسمجھنےمیں اتناماہرہوجاتاہےکہ دوانسانوں کےدرمیان ہونےوالی گفتگوکوکٹ کرکےاس گفتگوکوبہت اچھےطریقےسےخودبھی جاری رکھ سکتاہے۔

مصنوعی ذہانت کیوں اہم ہے؟

اےآئی ہمارے رہنے، کام کرنے اور کھیلنے کے طریقے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کے لیے اہم ہے۔ اسے کاروبار میں مؤثر طریقے سے انسانوں کے ذریعے کیے گئے کاموں کو خودکار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، بشمول کسٹمر سروس کا کام، لیڈ جنریشن، فراڈ کا پتہ لگانے اور کوالٹی کنٹرول۔ بہت سے شعبوں میں، اےآئی انسانوں کے مقابلے میں بہت بہتر کام انجام دے سکتی ہے۔ بڑی تعداد میں قانونی دستاویزات کا تجزیہ کرنا، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ متعلقہ فیلڈز کو صحیح طریقے سے پُر کیا گیا ہے، اےآئی ٹولز اکثر کاموں کو جلدی اور نسبتاً کم غلطیوں کے ساتھ مکمل کرتے ہیں۔ اےآئی کاروباری اداروں کو ان کے کاموں کے بارے میں بہترین مشورےدےسکتی ہے۔ جنریٹیو اےآئی ٹولزآنےوالےدورمیں تعلیم اور مارکیٹنگ سے لے کر پروڈکٹ ڈیزائن تک کے شعبوں میں اہم ہوں گے۔

مصنوعی ذہانت کےفوائد

یہ مشکل کاموں کاآسان کردیتی ہے۔ چھاتی کےکینسرسمیت مختلف موذی امراض کی تشخیص میں مصنوعی ذہانت ڈاکٹرزسےبھی زیادہ فائدہ مندثابت ہوئی ہے۔

اس کی مددسےہیوی ڈیٹاٹاسک کیلئےانتہائی کم وقت صرف ہوتاہے۔ بڑی صنعتوں بشمول بینکنگ، سیکیوریٹیز،فارمااورانشورنس میں بڑےپیمانےپرمصنوعی ذہانت کااستعمال ہوتاہے۔

مالیاتی خدمات، مثال کے طور پر، قرض کی درخواستوں پر کارروائی کرنے اور دھوکہ دہی کا پتہ لگانے کے لیے اےآئی کا استعمال بہت مفیدہے۔

محنت کو بچانےاورپیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنےکیلئےمصنوعی ذہانت کااستعمال کیاجاتاہے۔ یہاں ایک مثال وئیرہاوس منیجمنٹ کی ہےجس کی ضرورت کوروناوباکےدوران بہت زیادہ بڑھی۔ امید ہےاےآئی اور مشین لرننگ کے انضمام سے اس میں مزیدبہتری آئےگی۔

مصنوعی ذہانت کی مددسےسمال بزنس کوبھی چھوٹےسےچھوٹےٹاون میں صارفین تک ان کی اپنی زبان میں پہنچایاجاسکتاہے۔ انہیں تسلی بخش سروسزفراہم کی جاسکتی ہیں۔

اےآئی سےچلنےوالےورچوئل ایجنٹ ہمیشہ اپنےکام پرایکٹواورحاضررہتےہیں،انہیں وقفہ لینےیاچھٹی کرنےکی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

مصنوعی ذہانت کےنقصانات

یہ بہت مہنگی ہے۔

اس کیلئےبہت زیادہ تکنیکی مہارت کی ضرورت ہے۔

یہ انسانی روزگارکوختم کرکےاس کی جگہ لےلےگی۔

مصنوعی ذہانت صرف کمانڈپرچلتی ہے،اچھےیابرےمیں فرق کرنےکےقابل نہیں۔

جنگوں میں مصنوعی ذہانت کااستعمال بڑےپیمانےپرتباہی سےدوچارکرسکتاہے۔

مصنوعی ذہانت کی چاراقسام

مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں انٹیگریٹیو بائیولوجی، کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر آرینڈ ہینٹز کہتےہیں اے آئی کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ٹائپ ون: ری ایکٹومشینز

اس قسم کےاےآئی سسٹم میں کوئی میموری نہیں ہوتی اوریہ صرف ایک مخصوص کام ہی کرسکتےہیں۔ جیسےکہ آئی بی ایم کاڈیپ بلیونامی چیس پروگرام ۔ اس پروگرام نےانیس سونوےمیں گیری کاسپاروف کوشطرنج میں شکست دی تھی ۔ ڈیپ بلیوبساط پربچھےٹکڑوں کی شناخت کرکےپیشگوئیاں کرسکتاہےلیکن چونکہ اس کی کوئی میموری نہیں،اس لئےیہ اپنےتجربات کومستقبل میں استعمال کرنےکیلئےشیئرنہیں کرسکتا۔

ٹائپ ٹو: محدودمیموری

مصنوعی ذہانت کی اس قسم میں محدودپیمانےپریادداشت ہوتی ہے،اس لئےوہ ماضی کےتجربات کومستقبل میں شیئرکرسکتےہیں۔ سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں میں فیصلہ سازی کےکچھ فیچرزاسی قسم سےلئےگئےہیں۔

ٹائپ تھری : تھیوری آف مائنڈ

مصنوعی ذہانت کی یہ قسم ایک سائیکالوجی ٹرم ہے۔ مصنوعی ذہانت میں جب اسےاپلائی کیاجاتاہےتواس کامطلب ہےسسٹم انسانی رویوں اورارادوں کوسمجھنےمیں مدددےگا۔

ٹائپ فور: خودآگاہی

اس قسم کی کیٹگری میں سسٹم اپنےوجودکااحساس ہوتاہےجس سےاس کےاندرایک شعورپیداہوتاہے۔ اس قسم کی مصنوعی ذہانت کاابھی تک کوئی وجودنہیں۔

About Zaheer Ahmad

Muhammad Zaheer Ahmad is a senior journalist with a career spanning over 20 years in print and electronic media. He started from the Urdu language Daily Din, proceeding to Daily Times, where he stayed as sub-editor for 2 years. In 2008, he joined broadcast journalism as a Producer at the English language Express 24/7, and later to its major subsidiary, Express-News. Zaheer currently works there as a Senior News Producer. He is also the Managing Editor of newsmakers.com.pk. Zaheer can be reached at zaheer.ahmad.lhr@gmail.com

یہ بھی چیک کریں

Tiktok use in Veitnam

ٹک ٹاک امریکی نوجوانوں میں کیوں مقبول؟

ویب ڈیسک ۔۔۔ امریکی حکومت کی جانب سےمتعددبارپابندیوں کاسامناکرنےوالی چین کی ویڈیوشیئرنگ ایپلی کیشن ٹک …