اندھیراچاہےکتناہی گہراہو،روشنی کی ایک معمولی سی کرن اسےختم کرنےکیلئےکافی ہوتی ہے۔
دوستو،زندگی ایک الماری کی طرح ہےجس کےمختلف خانوں میں قدرت اپنےخودکارنظام کےتحت ہمارےماضی سےجڑی یادوں کوکپڑوں کی طرح تہہ لگاکررکھ دیتی ہے۔جب بھی ہم اس الماری کےاندرجھانکھتےہیں،اچھی اوربری یادیں ہماری نظروں کےسامنےآجاتی ہیں۔
ایسانہیں ہوسکتاکہ ہم اپنےماضی کی کھڑکی کھولیں توصرف ٹھنڈی ہوائیں ہی آئیں،لوکےتھپیڑےبھی ہمارےچہرےکوجلائیں گےکیونکہ زندگی اچھی اوربری یادوں کامجموعہ ہوتی ہے،جوکبھی ہمیں رلاتی ہیں توکبھی ہنساتی ہیں۔
اپنےبچپن کےوہ دن مجھےاچھی طرح یادہیں جب میرےدادادروازےپرہلکاساکھانس کرگھرکےاندرداخل ہوتےتومیری والدہ انہیں دیکھتےہی فوراًاپنےڈوپٹےسےگھونگٹ نکاللیاکرتی تھیں ۔ ایساہرروزہوتااورمیں اپنی معصومیت میں بےساختہ یہ سوچنےپرمجبورہوجاتاکہ دادابظاہرتوشریف آدمی لگتےہیں پھرمیری والدہ انہیں دیکھ کراپناچہرہ کیوں چھپالیتی ہیں؟
بہت بعدمیں جب دماغ نےشعورکی منزلیں طےکرناشروع کیں توپتاچلاکہ وہ سب تواس دورکی ایک روایت تھی جس کامقصداپنےبڑوں کاادب اوراحترام تھا۔ اب چونکہ وقت اورروایات دونوں ہی بدل چکےہیں اس لئےآج کل کی دلہنیں اپنےسسرکودیکھ کرگھونگٹ نہیں نکالتیں بلکہ الٹاسسرانہیں دیکھ کرنظریں چرانےپرمجبورہوجاتےہیں۔
وقت گزرنےکےساتھ چونکہ سب کچھ ہی الٹ پلٹ چکاہےاس لئےکبھی کبھارتوسمجھ نہیں آتی آخریہ سب ہوکیارہاہے؟
اپنےکالج کےدنوں کی بات کروں توان دنوں پی ایچ ڈی کرناکےٹوپہاڑسرکرنےکےبرابرسمجھاجاتاتھا۔ اکادکاپی ایچ ڈی اساتذہ ہوتےتھےاورجوتھےوہ بھی پچاس سےاوپر۔ اس کےمقابلےمیں آج کی بات کریں تواستاداورشاگردکافرق ہی مٹ چکاہے۔ کلاس میں شاگردوں کےدرمیان کھڑےٹیچرکواگرآپ نہیں جانتےتواسےپہچان بھی نہیں سکتے۔
کسی کام سےنجی یونیورسٹی جانےکااتفاق ہوا۔ مقررہ کلاس روم کےباہرپہنچاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک "طالبعلم” بچوں کوبلیک بورڈپرکچھ سمجھارہاتھا۔ مجھےلگاکہ شایداستاداسےاپنی جگہ کھڑاکرکےکسی کام سےباہرگئےہونگے۔ کلاس کےباہرسےاجازت طلب کرکےکہاکہ مجھےاستادمحترم سےملناہے۔بلیک بورڈکےپاس کھڑےلڑکےنےجواب دیافرمائیےکیاکام ہے؟ میں نےپھرکہاکہ مجھےاس کلاس کےانچارج ٹیچرسےملناہےتوموصوف کہنےلگےکہ وہ میں ہی ہوں۔
وقت گزرنےکےساتھ ساتھ اقداراورروایات کےساتھ ساتھ انسانی رویوں میں بھی بڑی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں ۔ جیسےکہ ہمارےبچپن میں والدین خاص طورپرباپ کابچوں پربہت رعب ہواکرتاتھا۔ شرارتی بچوں کوڈرانےاوراپنی بات منوانےکاماوں کےپاس سب سےآزمودہ ہتھیاریہی ہواکرتاتھاکہ آنےدوتمہارےباپ کو۔ تب بچےمعصوم ہواکرتےتھے،ماءوں کی اس جھوٹی دھمکی میں آکربات مان لیتےتھے۔
آج کل کےبچےبالکل بھی ویسےنہیں ۔ وہ ماں باپ سےنہیں بلکہ ماں باپ ان سےڈرتےہیں ۔ ہمارےدورمیں باپ گھرمیں داخل ہوتاتوبچےسہم کرتتربترہوجایاکرتےتھے۔ آج کل باپ گھرمیں داخل ہونےسےپہلےیہ سوچتاہےکہ اس نےکس بچےکی کونسی فرمائش پوری کرنی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: نورمقدم قتل کیس میں خوفناک انکشافات
زندگی میں آنےوالی تبدیلیوں کاسلسلہ محض انسانی رویوں تک محدودنہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی دنیامیں آنےوالی تیزرفتارترقی اورجدت کودیکھتےہوئےاس بات کاخدشہ بڑھ گیاہےزندگی کوروبوٹک بناتاانسان کہیں خودایک روبوٹ نہ بن جائے؟
یہ خدشہ اس لئےبھی غیرمنطقی نہیں کیونکہ آج کاانسان موبائل فون ، واٹس ایپ اورانٹرنیٹ کااس قدرمحتاج ہوچکاہےکہ اس کےبغیرزندگی کاتصوربھی محال ہے۔
مصنوعی ذہانت کےآنےکےبعدممکن ہےموبائل فون اوردوسرےگیجٹس کی شکل آنےوالےکچھ سالوں میں وہ نہ رہےجوآج ہے۔آرگینک سےان آرگینک خوراک پرمنتقل ہونےوالاانسان ہوسکتاہےاپنےروئیےمیں بھی اتناڈیجیٹیلائزہوجائےکہ اس پرانسان سےزیادہ کسی مشین کاگمان ہونےلگے۔