چین کےصوبےسنکیانگ میں ترکی النسل اویغورمسلمانوں کی بڑی تعدادآبادہے۔ دنیاکےدیگرخطوں کےمسلمانوں کی طرح یہ لوگ بھی سختی سےاپنےایمان اوراس کےبرملااظہارسےہرگزنہیں ہچکچاتے۔ اویغورمسلمانوں کی زیادہ ترآبادی نمازروزےاوردیگرفرائض کی پابندہےلیکن کچھ عرصےسےیہ بات بین الاقوامی میڈیامیں خبروں کی زینت بن رہی ہےکہ اس علاقےمیں چینی حکومت مسلمانوں کوزبردستی مذہب تبدیل کرنےکیلئےہرہتھکنڈہ بروئےکارلارہی ہے۔ چینی حکومت کاعام طورپران الزامات کی سختی سےتردیدکرتی ہےلیکن ایک بات وہ سرکاری طورپرتسلیم کرتےہیں کہ وہ مسلمان آبادی والےاس صوبےمیں انسدادانتہاپسندی جیسےمنصوبےچلارہی ہےتاکہ مسلمانوں اورباالخصوص ان کےبچوں کوانتہاپسندی سےدوررکھاجاسکے۔ چینی حکومت نےاس مقصدکیلئےووکیشنل تربیتی مراکزکھول رکھےہیں جہاں خبروں کےمطابق ہزاروں کی تعدادمیں مسلمان بچوں کومخصوص سلیبس پڑھایاجارہاہے۔ واضح رہےکہ ان بچوں کوچھوٹی عمرمیں ان کےوالدین سےالگ کرکےان تربیتی مراکزمیں لےآیاجاتاہےاوردوران تعلیم و تریبت یہ بچےاپنےوالدین سےبھی نہیں مل سکتے۔ ان بچوں کوتعلیم و تربیت ان مسلمان علماکےذریعےدی جاتی ہےجنہیں چینی حکومت نےمخصوص تربیت دےکریہاں استادلگایاہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کےمطابق ’’صرف ایک شہر میں ہی 400 سے زیادہ بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا گیا ہے۔ ان والدین کو کیمپوں یا جیلوں میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ سنکیانگ میں جہاں ایک طرف مسلمانوں کی شناخت تبدیل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو منظم طریقے سے ان کی جڑوں سے دور کیا جارہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اویغوروں کو ’ووکیشنل تربیتی مراکز‘ میں تعلیم دی جا رہی ہے تاکہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کر سکیں لیکن ثبوتوں کے مطابق کئی لوگ صرف اپنے مذہب کے اظہار، جیسے نماز پڑھنے یا نقاب کرنے، یا دوسرے ممالک جیسے ترکی میں بسنے والوں سے تعلقات رکھنے پر حراست میں لیے گئے ہیں۔‘‘ جان سڈورتھ ، بی بی سی رپورٹ سنکیانگ ۔
معروف کالم نگارعامررانانےڈان نیوزمیں اپنےآرٹیکل میں لکھاہے’’چین نےملک میں بسنےوالی مختلف اقلیتوں کےدرمیان ہم آہنگی کواپنےبیلٹ اینڈروڈمنصوبےکےتحت سرکارکی حکمت عملی کابنیادی جزوقراردیاہے ۔ چینی حکام کےخیال میں مختلف اقلیتوں کےدرمیان ہم آہنگی سےسنکیانگ جیسےعلاقےکوہرقسم کےمسائل سےبچاجاسکتاہے۔ لیکن مسلمانوں کاکہناہےکہ اس ہم آہنگی پروگرام ان کی مذہبی آزادی اورمسلم شناخت کی قیمت پرچلایاجارہاہے ۔ مسلمان ممالک ایغورمسلمانوں کےحق میں اس لئےنہیں بولتےکیونکہ چین سےانکے بھارتی اقتصادی مفادات جڑےہوتےہیں ۔ حال ہی میں چین نےصحافیوں سمیت دنیاکےمختلف ممالک سےمختلف شعبہ ہائےزندگی سےتعلق رکھنےوالےافرادکومسلمانوں کیلئےبنائےگئےری ہیب مراکزکادورہ کرایالیکن اس کےباوجودان تاثرکاخاتمہ نہیں ہوسکاجوان مراکزکےحوالےسےعالمی میڈیاکےذریعےسامنےآیاہے۔
چینی حکومت نےاویغورمسلمانوں کیلئےچینی زبان کےکورسزکولازم قراردیاہےتاکہ چیزیں سمجھنےسمجھانےکیلئےزبان کی رکاوٹ کودورکیاجاسکے۔ چینی زبان سکھانےکےاس پروگرام کااہم ترین پہلودراصل اسلام کاچینی ورژن متعارف کرواناہے۔ اس مقصدکیلئےاسلامک لرننگ سنٹرزبنائےہیں جہاں مساجدکیلئےامام تیارکئےجارہےہیں جومسلمانوں کواسلام کاچینی ورژن سمجھائیں گے۔